Orhan

Add To collaction

موسم موحببت اور تم

" میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔۔ پلیز آپ میری بات اطمینان سے سنیے گا۔" آواز لرزنے لگی تھی شہریار اکرام نے بغور اسے دیکھا تھا۔

" ہاں کہو۔۔۔ میں سن رہا ہوں۔" روشنیاں مدھم ہو رہی تھیں ۔۔۔ پاپ کارن کا پیکٹ اس نے اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔۔۔ اب وہ گم ہو جانے والے الفاظ اکٹھے کر رہی تھی۔

" میں جانتی ہوں کہ گزرے ہوۓ سالوں میں کبھی بھی ہم دونوں میں انڈر اسٹینڈنگ نہ ہو سکی شاید اس سب کی وجہ ہمارے مختلف مزاج ہونا تھے یا پھر جو بھی تھا۔۔۔ مگر چچا جان کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہماری مجبوری تھی۔۔۔ اب ہمارے ضروری ہے کہ ہم کوئی بہتر فیصلہ کر لیں۔۔۔" شہریار نے جیسے اپنے وجود سے جان نکلتی ہوئی محسوس کی تھی۔

" تمہارے خیال میں بہتر فیصلہ کیا ہو سکتا ہے۔۔۔؟" رنگوں نے بے رنگی اختیار کر لی تھی۔

" میں خود کو فی الحال اس بات کا اہل نہیں پاتی کہ درست فیصلہ کر سکوں مگر میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے اپ کو سمجھوتے کی زندگی گزارنی پڑے۔۔۔ میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے اپکو تکلیف اٹھانی پڑے۔۔۔ اپ خود مختار ہیں جو بھی فیصلہ کریں گے ۔۔۔ مجھے منظور ہو گا ۔۔۔" لفظ باز گشت کی طرح اڑ اڑ کر سماعتوں میں انڈیلے جا رہے تھے۔۔۔ ازیت در اذیت۔۔۔ اداسی سی چار سو پھیلنے لگی تھی۔

" عقیدت ۔۔۔ اور تم۔۔۔ تمہارا فیصلہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیا؟"

" میری ذات میں بہت سے خلا ہیں اور خلاؤں سے پر وجودوں کی خوشی کوئی بھی معنی نہیں رکھتی۔۔۔ ۔۔۔ بس میں اتنا چاہتی ہوں کہ میری وجہ سے کسی کو بھی سمجھوتہ نہ کرنا پڑے۔۔۔"

" مگر عقیدت ۔۔۔ اتنا وقت گزر گیا اور یہ بات تم اس وقت کیوں سوچ رہی ہو۔۔۔ کیا میرے کسی بھی فعل سے تمہیں ایسا محسوس ہوا کہ تم میرے لیے بوجھ ہو۔"

وہ پوچھ رہا تھا ۔۔۔ تصدیق چاہ رہا تھا ۔۔۔ عقیدت کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔۔۔ ہلکی سی خوشبوؤں میں لپٹی ہوا چلی تھی۔

" تمہیں کیا لگتا ہے صرف تمہارے ہی جزبات ' احساسات ہیں ۔۔۔ میں کچھ نہیں ہوں ۔۔۔ تم ہی فرار کی راہیں تلاش کر رہی ہو۔۔۔ میں ایسی لڑکی کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں جو میری راحت کے لیے اپنا آرام تک تج دیتی ہے۔۔۔ جس نے مجھے اس وقت سہارا دیا جب میں کچھ نہ تھا۔۔۔ مجھے اس قدر خود غرض مت بناؤ کہ مجھے اپنی ہی ذات پر شرمندہ ہونا پڑے۔۔۔" وہ غصے میں تھا۔۔۔ عقیدت کی گود میں رکھے پاپ کارن فٹ پاتھ کے کنارے گر کر اڑنے لگے تھے۔۔۔

وہ اب اپنا ہاتھ تھام کر فرسٹریشن میں چلا رہی تھی۔

" جب اتنی پروا کرتے ہو تو بتاتے کیوں نہیں۔۔۔۔ بہت انا والے ہو تم شہریار اکرام۔۔۔ دو قدم تم نہیں اٹھا سکتے تو ایک قدم میں بھی نہیں بڑھاؤں گی۔" وہ اب واپس مڑ رہی تھی۔۔۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

نیون سائن جھماکے سے جلنے بجھنے لگے تھے۔۔۔ اور وہ دونوں لڑتے جھگڑتے تیز چلتے جا رہے تھے۔۔۔ یہ سب رنگوں میں سب سے بھاری رنگ عشق ہے جس کے آنگن میں موسم' گل' مہک' اور مشکبار ہوائیں نثار ہوتی ہیں۔۔۔ عشق ست رنگی لالی کے جیسا ہوتا ہے جب عشق زادوں کے وجود پر گرتا ہے تو سرور کے ساتھ ساتھ ایک اور ساز بھی ابھرتا ہے۔

" بہ نوک خارمی رقصم۔۔۔ بہ نوک خارمی رقصم۔۔۔۔"

   1
0 Comments